صفحات

Tuesday, September 4, 2012

انصاف کا منہ کالا کیوں؟

قومی اخبارات میں تصویر چھَپی ہے، پولیس والے ایک ملزم کو عدالت لے جا رہے ہیں۔

ملزم کون ہے؟ اس کا نام خالد جدون ہے۔ اس پر الزام ہے کہ یہ عیسائی لڑکی رمشا کے خلاف قرآن پاک کی بے حرمتی کے مقدمے کا موجب بنا ہے۔

لفظ "موجب بنا ہے" قابلِ غور ہے۔

خیر، خالد جدون نامی امام مسجد ابھی صرف ملزم ہے۔ ۔ ۔ صرف ملزم

لیکن نیچے دی گئی تصویر ملاحظہ کریں:
Khalid Jadoon Under Police Custody
خالد جدون ابھی ملزم ہے، اُس پر کوئی جرم ثابت نہیں ہوا ہے۔ لیکن تصویر دیکھ کر لگتا ہے کہ شاید بہت بڑا دہشت گرد ہے، کوئی بہت بڑا لٹیرا ہےیا کوئی بہت بڑا قاتل۔ اُس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے۔ اور پولیس اسے کھینچتی ہوئی لے جارہی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ اگر اس کو تھوڑا ڈھیلا چھوڑدیا گیا تو فرار ہو جائےگا۔

اوپر جو کچھ لکھا گیا یہ کوئی خاص بات نہیں ہے، ایسا ہمارے ملک میں اور گندے اور بدبودار نظام میں عموماً ہوتا ہے۔
آگے آگے دیکھئے »

Friday, May 25, 2012

پاکستان پسماندہ پارٹی کا منشور:



ہم  اعلی عدلیہ کا بھی  احترام    کرتے رہیں گے
مگر جو کرنے کو آئے تھے کام ،کرتے رہیں گے

ہمارا  حکم   ہے،    ہم کو   ہے   حاصل  استثنی
ہم  استعفی  پہ  لعنت  ملام،   کرتے  رہیں  گے

بُرا ہو  وقت   تو        برائی   کا  زور   چلتا    ہے
اسی   برتے پہ  برائی کو  تھام ،  چلتے  رہیں   گے

ہم اپنی  سبھی خامیوں کو خوب، خوب کہیں گے
اوران کی جملہ خوبیوں کو خام ، کرتے رہیں گے

جو بچ رہے تھے  ادارے  مشرف کےستم سے
ہم ان کا قصّہ بھی  لیکن تمام ، کرتے رہیں گے

ہم اپنے دوستوں میں  سارے وسائل بانٹ کر
تمام مسائل  غریبوں کے نام،  کرتے رہیں گے

ہم    اپنے  پیٹ  کی خاطر   بڑھائیں گے   قیمت
اور احتجاج  کا   کام   عوام،    کرتے  رہیں   گے
آگے آگے دیکھئے »

Monday, May 21, 2012

ریلوے کے وزیر سے فائدہ اٹھائیے:

دنیابھر میں ریلویز کی ترقی کا اندازہ ریلوے انجنوں کی کارکردگی، پٹڑیوں کی حالت ،  دستیاب سہولیات اور مسافروں کی ریل پیل  سے لگایا جاتا ہے لیکن پاکستان میں ریلوے کی ترقی کا اندازہ وزیرِ ریلوے کی شکل دیکھ کر بھی لگایا جا سکتا ہے۔ مثلاً اگر ہم انڈین ریلوے کے وزیر کی شکل دیکھ کر وہاں کے ریلویز کا اندازہ لگانے کی کوشش کریں گے تو ہمارا اندازہ  غلط ثابت ہو  گا کیونکہ لالو کی شکل دیکھ کر ہمیں لگے گا  کہ انڈین  ریلوے کوئی آلونان چھولے کاٹھیلہ ہے ۔لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے اور انڈین ریلوے  کا شمار دنیا کے چند انتہائی نفع بخش ریلویز میں ہوتا ہے جس نے لالو کی وزارت کے دوران بے انتہا ترقی کی بالکل ویسے ہی جیسے آلووں کا نام چپس رکھنے کے بعد آلووں نے کی۔
بہر حال ہماری گفتگو کا محور پاکستان ریلوے ہےجس کے بارے میں درست جاننے کیلئے ایک بار ریل گاڑی میں سفر کرنا ضروری ہے، ورنہ جو کچھ کتابوں کہانیوں میں لکھا ہے، اس کا ذمہ دار صرف انگریز ہے۔انگریز کے جانے کے بعد ریلوے کے جو حالات و واقعات گزرے وہ اس قابل تھے کہ محکمہ تعلیم نے انھیں نصابی کتابوں تک میں لکھ اور چھاپ ڈالا، لیکن آج ریلوے کے جو حالات ہیں وہ اتنے فضول ہیں کہ صرف اخبارات میں ہی چَھپ سکتے ہیں اور چَھپ رہے ہیں بلکہ کئی  معاملات تو ایسے بھی ہیں جنھیں چُھپایا بھی جا رہا ہے۔
دنیا میں اگر کہیں کوئی ریل کا حادثہ ہو جائے تو ذمہ دار شخص استعفی دے دیتا ہے تا کہ شرمندگی کا ازالہ ہو لیکن پاکستان میں ایسے کسی واقعے پر انٹرویو دیے جاتے ہیں  تاکہ ڈھٹائی دوبالا ہو۔ ایسے ہی ایک  انٹرویو کے دوران جب ہم نے ریلوے کے وزیر کی آواز سنی تو دل میں کھٹکاہوا کہ شایداسٹیم انجنوں کا دور دوبارہ آنے والا ہے۔کیونکہ وزیر موصوف کی آواز ہوبہو اسٹیم انجن جیسی لگی لیکن ہمارا یہ اندازہ درست ثابت نہ ہوا۔اسٹیم انجن آج کل نایاب ہیں اور نئے بھی تیار نہیں ہو رہے ہیں،  نصیب اپنا اپنا۔
ایک زمانہ تھا جب لوگ ٹرین دیکھ کر اپنی گھڑیوں کا وقت درست کیا کرتے تھے لیکن آج کل ریلوے اسٹیشن پر کھڑے ،کالر اور کف درست کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بگڑتے بگڑتے اب تو ایسے حالات ہو چکے ہیں کہ بدقسمت اور مجبور مسافربددعائیں تو وزیر کو دیتے ہیں لیکن وہ لگتی کھانستے ہوئے نحیف انجنوں کو ہیں جو بالآخر کسی رہگزر پر ہی داغ مفارقت دے جاتے ہیں اور اچھے چال چلن والی ٹرینوں  کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں۔
آگے آگے دیکھئے »