صفحات

Monday, May 21, 2012

ریلوے کے وزیر سے فائدہ اٹھائیے:

دنیابھر میں ریلویز کی ترقی کا اندازہ ریلوے انجنوں کی کارکردگی، پٹڑیوں کی حالت ،  دستیاب سہولیات اور مسافروں کی ریل پیل  سے لگایا جاتا ہے لیکن پاکستان میں ریلوے کی ترقی کا اندازہ وزیرِ ریلوے کی شکل دیکھ کر بھی لگایا جا سکتا ہے۔ مثلاً اگر ہم انڈین ریلوے کے وزیر کی شکل دیکھ کر وہاں کے ریلویز کا اندازہ لگانے کی کوشش کریں گے تو ہمارا اندازہ  غلط ثابت ہو  گا کیونکہ لالو کی شکل دیکھ کر ہمیں لگے گا  کہ انڈین  ریلوے کوئی آلونان چھولے کاٹھیلہ ہے ۔لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے اور انڈین ریلوے  کا شمار دنیا کے چند انتہائی نفع بخش ریلویز میں ہوتا ہے جس نے لالو کی وزارت کے دوران بے انتہا ترقی کی بالکل ویسے ہی جیسے آلووں کا نام چپس رکھنے کے بعد آلووں نے کی۔
بہر حال ہماری گفتگو کا محور پاکستان ریلوے ہےجس کے بارے میں درست جاننے کیلئے ایک بار ریل گاڑی میں سفر کرنا ضروری ہے، ورنہ جو کچھ کتابوں کہانیوں میں لکھا ہے، اس کا ذمہ دار صرف انگریز ہے۔انگریز کے جانے کے بعد ریلوے کے جو حالات و واقعات گزرے وہ اس قابل تھے کہ محکمہ تعلیم نے انھیں نصابی کتابوں تک میں لکھ اور چھاپ ڈالا، لیکن آج ریلوے کے جو حالات ہیں وہ اتنے فضول ہیں کہ صرف اخبارات میں ہی چَھپ سکتے ہیں اور چَھپ رہے ہیں بلکہ کئی  معاملات تو ایسے بھی ہیں جنھیں چُھپایا بھی جا رہا ہے۔
دنیا میں اگر کہیں کوئی ریل کا حادثہ ہو جائے تو ذمہ دار شخص استعفی دے دیتا ہے تا کہ شرمندگی کا ازالہ ہو لیکن پاکستان میں ایسے کسی واقعے پر انٹرویو دیے جاتے ہیں  تاکہ ڈھٹائی دوبالا ہو۔ ایسے ہی ایک  انٹرویو کے دوران جب ہم نے ریلوے کے وزیر کی آواز سنی تو دل میں کھٹکاہوا کہ شایداسٹیم انجنوں کا دور دوبارہ آنے والا ہے۔کیونکہ وزیر موصوف کی آواز ہوبہو اسٹیم انجن جیسی لگی لیکن ہمارا یہ اندازہ درست ثابت نہ ہوا۔اسٹیم انجن آج کل نایاب ہیں اور نئے بھی تیار نہیں ہو رہے ہیں،  نصیب اپنا اپنا۔
ایک زمانہ تھا جب لوگ ٹرین دیکھ کر اپنی گھڑیوں کا وقت درست کیا کرتے تھے لیکن آج کل ریلوے اسٹیشن پر کھڑے ،کالر اور کف درست کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بگڑتے بگڑتے اب تو ایسے حالات ہو چکے ہیں کہ بدقسمت اور مجبور مسافربددعائیں تو وزیر کو دیتے ہیں لیکن وہ لگتی کھانستے ہوئے نحیف انجنوں کو ہیں جو بالآخر کسی رہگزر پر ہی داغ مفارقت دے جاتے ہیں اور اچھے چال چلن والی ٹرینوں  کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں۔
اخبارات لکھتے  ہیں کہ ریلوے کی زبوں حالی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وزیر موصوف کی اپنی بسیں چلتی ہیں ریلوے کا پہیہ جام ہو گا تو بسوں کا بزنس بے لگام ہو گالیکن وزیر کی شکل و صورت دیکھ کر تو لگتا ہے کہ اخبارات میں سب افسانے چھپتے ہیں ایسی ۔ ۔ ۔ شکل کے آدمی ہم نے تو بے شمار بسوں میں دانت منجن اور سُرما بیچتے دیکھے ہیں۔ ترقی کرکے یہ لوگ زیادہ سے زیادہ ٹرینوں میں کھٹی میٹھی گولیاں  ٹافیا ں بیچ لیتے ہیں۔ ریل کا وزیر بننا ہمارے سمیت پوری قوم کی  سمجھ سے بالا ہے۔ 
ہمیں ایک مسافر نے ایسی بات بتائی جو یقین جانئے سو فیصد سچی لگتی ہے، حالانکہ آج کل سچی بات دل کو نہیں لگتی ہے لیکن پھر بھی ماننے کے سوا  کوئی  چارہ نہیں۔ وہ بتانےلگا کہ اس نے  ماضی قریب میں خود اپنی آنکھوں سے اس وزیر کی تصویریں کئی  ریلوے اسٹیشنوں  پر اور ٹرین کی بوگیوں کے اندردیکھی تھیں۔ بجلی کے تمام سوئچوں کے نیچے ایسی تصویریں چھپی ہوتیں اور ساتھ ہی خطرہ لکھا ہوا ہوتا تھا، ہلکے سرخ رنگ کی روشنائی سے۔ہم نے اس مسافر کی یادداشت کی داد دی، حالانکہ ریل میں ہم نے بھی بہت سفر کئے تھے،  لیکن یہ باتیں ہماری یادداشت میں دھندلاچکی تھیں،  ہم نے ہاں میں سر ہلا کر مسافر کا شکریہ ادا کیا، سچ بولنے کا شکریہ۔
کہتے ہیں کہ ریلوے کا محکمہ مسلسل خسارے میں جا رہا ہے حالانکہ جس محکمے کے پاس ایسا نابغہ وزیر ہو،  اس کے خسارے میں جانے کا کوئی جواز بہرحال بنتانہیں ۔ حکومت کو چاہئے کہ یقینی امداد کے حصول کیلئے مالی امداد کی درخواست جلد از جلد کسی ڈونرکو بھجوائے،وزیر موصوف کی تصویرکیساتھ۔ کسی انٹرویو کی  سی ڈی بھی ساتھ بھجوا دیں تو سونے پہ سہاگہ سمجھیں۔ موجودہ حکومت اور موجودہ حالات میں ریلوے کے وزیر سے فائدہ اٹھانے کا اس سے بہتر طریقہ اور کوئی نہیں۔
[چلتا چل کی کتاب مسافر مارا مارا سے]

0 تبصرے::

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

ضروری بات : غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, بےلاگ کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کریں۔